“اکیلی”

واقعہ  لاہور کا ہو یا  موٹروے کا، ایک بچے /بچی سے کسی رشتہ داریا نام نہاد مذہبی رہنما کی زیادتی کا، سب ایک زخم دے کر  جاتے ہیں اور ہم جیسوں کی روح کانپ جاتی ہے ۔ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو  سمارٹ فون سے مووی بناتے ہیں اور پوسٹ بھی کرتے ہیں ۔ یا پھر اس انسان پر تنقید کرتے ہین جو درندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان تمام واقعات سے ایک بات تو طے ہے کہ کہ ہم اپنی نسل کو  بحیثیت قوم نا اچھی تعلیم دے سکے نا ان کی  تربیت کر سکے۔ اب تمام واقعات میں  جب بھی تربیت کی بات ہو تو ماں کا ذکرِ  ضرور ہوتا ہے ۔ ایک مختصر بات کے بعد. سلسلہ اگے بڑھائیں گے ۔ گھر میں ماں کے ساتھ باپ کو بھی شامل کیا کیجئے  کیونکہ اگر باپ نسلی اور عزت کرنے والا نہ ہو تو ماں کیا خاک ترتیب کرے گی ۔  آپ گھر کے ماحول کے اثرات کو ترتیب سے کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی بات چیت کریں گے ۔


اردو  لغت میں  لفظ “اکیلی” کے معنی ہیں تنہا جس کا کوئی ساتھی نہ ہو ۔ ان معنی کو ذہن میں رکھیں۔ 

 ​​ پاکستانی معاشرے میں استعمال کی جانے والی چند مثالیں۔ 

دو بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی “اکیلی” عورت

ملازمین کے ہوتے ہوئے بھی “اکیلی” نور مقدم

ہجوم میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ”اکیلی” ٹک ٹاکر

موٹر وے ہے سفر کرنے والی تین “اکیلی” لڑکیاں

سوزوکی پک اپ میں اپنے والد کے ساتھ سفر کرتی “اکیلی” لڑکی جس کو سامنے بیٹھا مرد مسلسل اپنی ٹانگوں کو آگے بڑھا کر اس کی ٹانگوں کو چھوتا ہے (اور پھر لڑکی کے والد سے چپیڑیں کھا کر سکون کرنا)6

“لیڈیز سیٹ” پر بیٹھی 3-4 ” اکیلی” خواتین۔ کھڑکی کی جانب بیٹھا مرد، آگے بیٹھی “اکیلی” خاتون کو سائیڈ پہ موجود پتلی  سی  جگہ سے ہاتھ ڈال کر چھوتا ہے اور ساتھ بیٹھا مرد خاموش تماشائی ہے۔ 

  وین کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی 2 یا 3 بچیاں اور ڈرایئور کے  بیٹھی ہوئی سہمی ہوئی بچی، جس کو اکثر ڈرایئور ہاتھ لگانا اپنا حق سمجھتے ہیں

  اپنے بچوں کے سامنے قتل ہونے والی “اکیلی” عورت۔

سب لوگوں کے سامنے بے حرمتی کا شکار ہونے والی “اکیلی” بزرگ عورت۔

 300+ مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کا سفر کرنے والی “اکیلی” عورت جس کو پاکستان سے دوہا، ابو دابی، اور دبئی جانے والے اکثر مرد اگر اس اکیلی عورت کے ساتھ بیٹھ جاہیں تو ان کے ہاتھ اور ٹانگ قابو میں نہیں رہتیں۔ 

 رکشے میں سفر کرتیں “اکیلی” ماں اور بیٹی لسٹ بہت لمبی ہے صاحب اور اس “اکیلی” عورت میں مزید ہمت بھی نہیں۔ یہ مثالیں  فرضی نہیں ۔ راولپنڈی میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے میرے اپنے تجربات ہیں

 ۔
 اب اُردو لغت میں دیئے گئے  معنی کے مطابق  “اکیلی عورت” کی چند  مثالیں ۔۔۔ وہ عورت جو تنہا ہے، بچے، مرد کوئی ساتھ نہیں۔

 
اکیلی ہوتی ہے وہ جو اوبر میں ایک مرد ڈرایئور اور نشے میں دھت مرد مسافر کے ساتھ سفر کر کے خیریت سے گھر پہنچے۔

 اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو 26 گھنٹوں کا سفر ٹرین میں ساتھ بیٹھے ایک انجان  مرد کے ساتھ آرام سے سو کرگزار دے۔

اکیلی عورت وہ ہوتی ہے 14 گھنٹے کا سفر بیماری میں ایک انجان مرد کے ساتھ بیٹھ کر گزارے جو اس کو نیند سے اٹھا کر کھانا کھانے کو کہے۔

 اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو تیز بارش سے پریشان ہو کر انجان سڑک پر سکون سے سائیڈ پر گاڑی پارک کر لے.

اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو پانچ گھنٹے کی ڈرائیو بغیر کسی مرد ڈرائیور کی بدتمیزی کے کر لے۔

اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو مردوں سے بھری بس میں بے فکر ہو کر چڑھ جائے کہ کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا ۔یہ فہرست بھی لمبی ہے۔ یہ بھی سفر کرنے کے میرے اپنے تجربات ہیں۔

 
بہت سارے لوگ کہیں گے کہ اس معاشرے میں بھی تو ایسا ھوتا تھا۔ تو جناب وہ اکیسویں صدی نہیں تھی۔ اور اب جو ہوتا ہے، قانون اپنا کام شروع کرتا ہے۔میں  ہرگز یہ نہیں کہہ رہی کہ ان ممالک میں عورتوں کے ساتھ  کچھ برا نہیں  ہوتا۔ بالکل ہوتا ہے ۔ مگر قانون کی بالادستی قائم ہے اور انصاف بھی مل جاتا ہے ۔
کچھ لوگ یہ بھی سوچیں گے کہ دیکھو مغرب نے ہماری اقدار اپنا لیں. اس غلط فہمی سے باہر نکل آئیں۔ مغربی ممالک کی اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار ہیں جن کو اکثریت مانتی ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عورت کبھی  اکیلی ہوتی ہے۔ اب وہ لوگ جو مرد کی غیر موجودگی میں عورت کو اکیلا  اور غیر محفوظ سمجھتے ہیں  ، آپ اپنے ایمان کا معائنہ کریں اور مذہبی کتاب کو غور سے پڑھیں۔ اب آپ کہیں گے کہ ہم تو بڑی باقاعدگی سے اپنی کتاب پڑھتے ہیں اور ایمان بھی بڑا مضبوط ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ مرد کے بغیر عورت کو اکیلا کیوں کہتے ہیں؟ آپ سب کی مقدس کتاب یہ کہتی ہے کہ خدا، اللہ، بھگوان ہر جگہ، ہر وقت موجود ہوتا ہے اور وہ سب کا محافظ ہے۔ کیا کوئی مرد خدا، اللہ، بھگوان سے بڑا محافظ ہو سکتا ہے؟  پھر عورت مرد کے بغیر کیسے اکیلی اور غیر محفوظ ہو سکتی ہے۔ عورتیں بھی تو اُسی  پر ایمان رکھ کر گھر سے نکلتی ہیں ۔ پھر وہ  اکیلی کیسے ہو سکتی ہیں ۔  یہ درندے خدا، اللہ، بھگوان کی موجودگی میں ایسا گھناونا فعل کرتے ہیں اور عورت کی دہائی پر ہم سب کا  خدا، اللہ، بھگوان زمین پر کیوں نہیں اترتے ۔ جانتے ہیں. ایسا کیوں ہے ۔میری ناقص عقل کے مطابق ایسا اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ انسان کو  خدا نے اپنے روپ میں  پیدا کیا۔

 یہ واقعہ میں نے  فیس بُک پر پڑھا ۔ رات کو عورت اکیلی جا رہی تھی سیدنا عمرِ فاروقؓ پوچھتے ہیں،اے عورت تجھے اکیلے سفر کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا،تو عورت کہتی ہے یا تو عمرؓ کا وصال ہوگیا ہے یا تم ہی عمرؓ ہوورنہ،”عمر بن خطابؓ کی خلافت میں کسی کی جرات نہیں کہ کوئی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔”اس واقعے کے مطابق 1) حاکمِ وقت پر عوام کا اعتماد، 2) قانون کی بالادستی ایسے معاشرے کو جنم دیتے ہیں ۔ ہم تو ایسی معاشرت کو بھول ہی چکے ہیں ۔


ایک اور واقعہ جو کہ فرضی ہے ۔ آپ نے یقیناً سن رکھا ہو گا۔ ایک شخص جزیرے پر پھنس جاتا ہے. اور رو رو کر خدا سے اس کی مدد کرنے کی دعا کرتا ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ خدا اس کی مدد کے لیے خود زمین پر آئے گا ۔ مختصراً، بہت زندہ بچنے کے مواقعے وہ شخص یہ کہ کے گنوا دیتا ہے کہ خدا خود زمیں پر آ کر اس کی مدد کرے گا ۔ ظاہر ہے وہ اس آس میں ہی وفات پا جاتا ہے ۔ جب خدا سے ملاقات ہوتی ہے تو شکوہ کرتا ہے کہ خدا نے اس کی مدد کیوں نہیں کی۔ اور خدا اس کو کہتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس کی مدد کیلئے آۓ وہ سب خدا نے ہی بھیجے تھے۔ اس واقعے کے مہفوم کو سمجھیں ۔ خدا ، اللہ، بھگوان زمین پر نہیں آتا ، انسانی روپ میں مددگار آتے ہیں ۔ اس واقعے سے ہم یہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود انسانی روپ میں ہوتا ہے ۔ انسان ہی یہ بھول گیا ہے کہ اس کا فرض صرف دعائیں کرنا نہیں بلکہ اپنی موجودگی میں دوسرے کی حفاظت کرنا بھی فرض ہے ۔ اب ہم یا تو یہ مان لیں کہ عورت کبھی اکیلی نہیں ہوتی اور ہر جگہ ہمارا رب موجود ہے یا پھر مشہود فلاسفر ڈیوڈ ہیوم کے فلسفے کو مان لیں ۔